غیر مسلموں سے شادی ایک سنگین مسئلہ
از:مولانا محمد طارق اعظم قاسمی
امت
مسلمہ جن بڑے بڑے مسائل سے دوچار ہے ان میں سے ایک بڑا اور سنگین
مسئلہ غیرمسلموں سے مسلم لڑکے اور لڑکی کا شادی کرنا ہے۔اس
کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جائے کہ یہ فعل
اگر دانستہ اور رضامندی کے ساتھ ہوتو یہ فعل ایک مسلمان کو
ارتداد کی دہلیز پر لا کھڑا کردیتا ہے؛ اس لیے کہ
ارتدادکسی مسلمان کا دین اسلام سے پھر جانے، احکام اسلام کو نہ ماننے یا
کسی حکم شرعی کا مذاق اڑانے کو کہا جاتاہے۔
مسلم
دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا خطہ اور علاقہ ہو جو اس
سنگین مسئلہ سے دوچار نہ ہو اور شاید ہی کوئی مسلمان جو
اپنے پہلو میں دھڑکتا ہوا درد مند دل رکھتا ہو اور اس کے تئیں سنجیدہ
اور فکر مند نہ ہو اور فکرمند ہونا بھی چاہیے کہ ایک مومن اور
مسلم کا ارتداد کے مرحلے تک جا پہنچنا خواہ شعوری طورپر ہو یا غیرشعوری
طورپر دوسرے مسلم بھائی کے لیے کسی بڑے سانحے اور حادثے سے کم
نہیں ہے۔
ہندوستانی
مسلمان بھی اس سنگین مسئلہ سے شدید طورپر متاثر ہے، ملک کے طول
و عرض سے آئے دن یہ روح فرسا واقعات سننے اور پڑھنے کو ملتے رہتے ہیں
کہ فلاں مسلم لڑکے یا لڑکی نے فلاں غیرمسلم لڑکی یا
لڑکے سے شادی رچا لی۔ ان روح فرسا اور دل کو چھلنی کردینے
والے واقعات کا سب سے زیادہ دل دہلا دینے والا پہلو یہ ہے کہ
مسلم لڑکے اور لڑکی اپنی رضامندی اور خوشدلی سے ایسا
کررہے ہیں اور انھیں اس پر ذرا بھی افسوس نہیں اور اس پر
دشمن کی چالیں اور سازشیں مستزاد ہیں۔
اباحیت
پسندی، مغربی تہذیب کی اندھی دلدادگی اور فرد
کی بے محابا آزادی نے جہاں اس کو خوب بڑھاوا دیا ہے، وہیں
مسلم نسل نو کی ایمانی اور اسلامی تربیت سے ہماری
غفلت کوشی اور سہل انگاری کا بھی بڑا دخل ہے۔ فکر معاش نے
ہمیں فکرِ معاد (آخرت) سے بالکل غافل کر رکھا ہے۔ اس سنگین وبا سے سب سے زیادہ متاثر
مسلمانوں کا جدید تعلیم یافتہ وہ طبقہ ہے جو ایمانی
اور اسلامی اسلحہ سے مسلح ہوئے بغیر کالجوں اور یونیورسٹیوں
کا رخ کیا ہے اور کررہے ہیں جوکہ درحقیقت ایمانی
اور اسلامی قتل گاہ ہے،دشمنوں کی سازشوں کے نشانہ پر بھی زیادہ
تر یہی طبقہ ہے۔
اس
بحرانی صورتحال سے نکلنے کے لیے یہ ضروری معلوم ہوتاہے کہ
اس قسم کے افراد سے تعلقات کو بڑھا کر نہایت ہی حکمت، خیر خواہی،
دلسوزی اور ہمدردی کے ساتھ ان کی ذہن سازی کی جائے
اور یہ ذہن سازی دو طرح سے کی جائے؛ایک یہ کہ اسلام
اور ایمان کی اہمیت اور عظمت کو ان کے دلوں میں جاگزیں
کیا جائے کہ ایمان اور اسلام ہی ایک مسلمان کا سب سے بڑا
سرمایہ اور دولت ہے؛ اس لیے کہ دونوں جہاں کی کامیابی
اسی ایمان پر ہی منحصر ہے۔ ایمان اور اسلام کی
حفاظت اور بقا کے لیے ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان جان،
مال اور عیال سے گذر جانا تو گوارا کرلے گا؛ لیکن اس پر کسی
سمجھوتے اور سودے کے لیے تیار نہیں ہوگا، جیسا کہ حضرت نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ ؓ کے واسطے سے پوری
امت کو یہ وصیت فرمائی کہ ’’کسی حال میں شرک نہ
کرنا خواہ تم قتل کردیے جاؤ یا جلا دیے جائو‘‘(مسند احمد)۔
اسی
مضمون پر مشتمل پوری ایک سورت قرآن میں سورئہ کافرون کے نام سے
موجود ہے۔ اس سورت کا بنیادی مضمون ہی یہی ہے
کہ کفر اور شرک پر کسی صورت میں کوئی مصلحت ہوہی نہیں
سکتی ہے۔ قرآن نے اللہ تعالی کے منکروں کو دوٹوک جواب دے دیا
ہے: ’’لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِيَ دِیْن‘‘۔
تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین
ہے ‘‘۔
تاہم
پھر بھی کوئی بدنصیب اپنے ایمان کی ناقدری
کرتے ہوئے عارضی اور وقتی دنیاوی فائدے کی خاطر ایمان
کا سودا کرلے تو اللہ تعالی نے اس سودے کو تجارت سے تعبیر کرتے ہوئے
انتہائی گھاٹے کا سودا قرار دیا ہے۔ ارشاد باری ہے:
أُوْلٰٓئِکَ
الَّذِینَ اشْتَرُوُاْ الضَّلاَلَۃَ بِالْہُدیٰ فَمَا
رَبِحَت تِّجَارَتُہُمْ وَمَا کَانُواْ مُہْتَدِینَ (البقرۃ:۱۶)
یہ
وہ لوگ ہیں جنھوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی
ہے، لہٰذا نہ ان کی تجارت میں نفع ہوا اور نہ انھیں صحیح
راستہ نصیب ہوا۔
یہ
آیت صاف صاف بتلا رہی ہے کہ جس کسی نے برضا و رغبت ہدایت
کے بدلے ضلالت یعنی ایمان کے بدلے کفر کو اختیار کیا
تو ایسے بدنصیب کو قرآن غضبِ الٰہی اور سخت عذاب سے ڈراتا
ہے۔ ایک اور مقام پر قرآن مجید زبردستی کفر کے اختیار
کرنے کے مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
مَنْ
کَفَرَ بِاللہِ مِنْ بَعْدِ اِیْمَانِہٖٓ اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ
وَ قَلْبُہ مُطْمَئِنٌّ بِالْاِیْمَانِ وَ لٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ
بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْہِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللہِ وَ لَہُمْ عَذَابٌ
عَظِیْمٌ(سورہ نحل:۱۰۶)
ترجمہ:
جو شخص اللہ پر ایمان لانے کے بعد اس کے ساتھ کفر کا ارتکاب کرے، وہ نہیں
جسے زبردستی (کفر کا کلمہ کہنے پر) مجبور کردیا گیا ہو؛ جب کہ
اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو؛ بلکہ وہ شخص جس نے اپنا سینہ کفر کے لیے
کھول دیا ہو، تو ایسے لوگوں پر اللہ کی طرف سے غضب نازل ہوگا،
اور ان کے لیے زبردست عذاب تیار ہے۔
یعنی
اگر کوئی مومن کلمہ کفر کہنے پر جان جانے کے اندیشے سے مجبور ہو تو اس
جبری صورت کی اس شرط کے ساتھ گنجائش ہے کہ دل ایمان پر مطمئن ہو
اور اگر کسی نے کلمۂ کفر اختیار اور رضامندی سے کہا تو ایسے
بدنصیبوں پر اللہ تعالی کا غضب اور سخت عذاب ہے۔
اسلامی
احکام و قوانین خوبیوں کا ایک حسین مرقع اور عمدہ صفات کا
ایک بہترین مجموعہ ہے کہ اس کی جامعیت اور فطری کشش
ہی سلیم العقل افراد اور ہوش مندوں کو اپنی جانب کھینچتی
ہے اور اس کے قبول کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
اسلام نے اپنے ماننے والوں سے بجا طورپر پورا کا پورا اسلام میں آنے کا
مطالبہ کیا ہے؛ تاکہ اسلام کے آغوش میں پناہ لینے والا ہر فرد
اچھے اخلاق اور خوبیوں کا پیکر ہو، بُرے اخلاق سے انھیں دور کا
بھی واسطہ نہ ہو۔ ارشاد ہے: یٰٓاَیُّہَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ اِنَّہ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ (البقرہ:۲۰۸)
ترجمہ:اے
ایمان والو ! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ، اور شیطان کے
نقشِ قدم پر نہ چلو، یقین جانو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
اس
سے ہٹ کر جن لوگوں کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ عملی اعتبار سے اسلامی
احکام کے درمیان فرق کرتے ہیں یا امتیاز برتتے ہیں
کہ جو ان کی طبیعت اور مزاج کے موافق ہوتا ہے اسے قبول کرتے ہیں،
اور جو ان کی مسخ شدہ عقل اور خواہش کے خلاف ہوتی ہے، اسے پیٹھ
پیچھے ڈال دیتے ہیں۔ تو اس فرق کرنے والے اور امتیاز
برتنے والے رویے کو قرآن کفر سے تعبیر کرتاہے۔ایسے افراد
کو دنیا اور آخرت میں رسوائی اور سخت عذاب کی وعید
سناتا ہے۔ ارشاد ہے: اَفَتُؤْمِنُوْنَ
بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَ تَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَآئُ مَنْ یَّفْعَلُ
ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِی الْحَیٰوۃِ
الدُّنْیَا وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ
اِلٰٓی اَشَدِّ الْعَذَابِ
وَمَا اللہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ(البقرۃ:۸۵)
ترجمہ:تو کیا تم کتاب کے کچھ حصے پر تو ایمان رکھتے ہو اور کچھ کا
انکار کرتے ہو ؟ اب بتاؤ کہ جو شخص ایسا کرے اس کی سزا اس کے سوا کیا
ہے کہ دنیوی زندگی میں اس کی رسوائی ہو ؟ اور
قیامت کے دن ایسے لوگوں کو سخت ترین عذاب کی طرف بھیج
دیا جائے گا اور جو کچھ تم عمل کرتے ہو اللہ اس سے غافل نہیں ہے۔
یہاں
ایک سوال پیدا ہوتاہے کہ محض عمل کے نہ کرنے سے تو کوئی کافر نہیں
ہوتا؛ جب تک کہ اس کا انکار نہ کردے یا حلال کو حرام اور حرام کو حلال نہ
کردے۔ اسی شبہ اور سوال کا جواب دیتے ہوئے حضرت مفتی
محمدشفیع عثمانی ؒ
لکھتے ہیں:’’ہرچند کہ وہ یہودی جن کا قصہ میں ذکر ہے، نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی
نبوت کا انکار کرنے کی بنا پر کافر ہی تھے؛ مگر یہاں ان کا کفر
مذکور نہیں؛بلکہ بعض احکام پر عمل نہ کرنے کو کفر سے تعبیر فرمایا
ہے؛ حالانکہ جب تک حرام کو حرام سمجھے آدمی کافر نہیں ہوتا۔ سو
اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ جو گناہ بہت شدید ہوتاہے، اس پر محاوراتِ شرعیہ
میں اس کی شدت کے پیشِ نظر کفر کا اطلاق کردیا جاتاہے۔
ہم اپنے محاوراتِ عرفیہ میں اس کی مثالیں رات دن دیکھتے
ہیں، جیسے کسی ذلیل حرکت کرنے والے کو کہہ دیتے ہیں
کہ تو تو بالکل چمار ہے؛ حالانکہ مخاطب چمار یقینا نہیں ہے۔
اس سے مقصود شدتِ نفرت اور اس کام کی قباحت ظاہر کرنا ہوتاہے۔ اور یہی
معنی ہیں اس حدیث مَنْ تَرَکَ
الصلوٰۃَ مُتَعَمِّدًا فَقَدْ کَفَر
(جس نے جان بوجھ کر نماز ادا نہیں کیا گویا اس نے کفر کیا)
وغیرہ کے‘‘(معارف القرآن، ج۱، ص۲۵۷)
غیر
مسلموں سے شادی کو اسلام نے منع کیوں کیا، اس کی تفصیل
پیش کرنے سے قبل ضروری سمجھتا ہوں کہ اس سے متعلق اسلامی نظامِ
نکاح کے پہلو کو پیش کروں؛ تاکہ اس مسئلے کی بھی مکمل وضاحت
ہوجائے اور احکامِ اسلام کی جامعیت کا ایک نمونہ بھی
سامنے آ جائے۔
اسلام
نے جہاں نکاح کو ایک نعمت قرار دیا ہے اور اس کے کرنے کی ترغیب
دی ہے وہیں اس کے لیے
کچھ حدود اور شرطیں بھی مقرر کی ہیں۔ ان میں
سے ایک اہم شرط یہ ہے کہ نکاح ان عورتوں سے نہ کیا جائے جن سے
نکاح کرنے کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے۔ اصولی طورپر
حرمت کی دو شکلیں ہیں۔ اول ابدی اور دائمی یعنی
وہ عورتیں جن سے نکاح کرنا ہمیشہ کے لیے حرام ہے۔ دوم
عارضی اور وقتی یعنی وہ عورتیں جن سے کسی وجہ
اور علت کے سبب وقتی طورپر نکاح حرام ہے۔ حرمت کے کل نو اسباب ہیں۔
ان میں سے تین اسباب ایسے ہیں جن سے حرمت ہمیشہ کے
لیے ثابت ہوتی ہے اور چھ اسباب ایسے ہیں جن سے حرمت عارضی
اور وقتی طورپر ثابت ہوتی ہے۔
ابدی
حرمت کے تین سبب یہ ہیں:
۱-
نسب: اس سے مراد وہ نسبی رشتے ہیں جن کو قرآن مجید نے نکاح میں
مانع (رکاوٹ) قرار دیا ہے، یہ رشتے اس میں شامل ہیں:اصولی
رشتہ دار (ماں اور باپ کا پورا سلسلۂ اجداد)، فروعی رشتہ دار (بیٹے
اوربیٹی کا پورا سلسلۂ اولاد)، ماں باپ کے بھائی بہن،
اور خود اپنے بھائی بہن۔ (نسائ:۲۳)
۲- صہر: اس سے مراد سسرالی رشتہ داری
ہے، سسرالی رشتہ داروں میں شوہر اور بیوی کے اصول (آبائی
سلسلہ) اور فروع (اولادی سلسلہ) حرام ہے۔ (نسائ:۲۳ )
۳-
رضاعت: اس سے مراد وہ حرمت ہے جو دودھ پینے سے ثابت ہوتی ہے اور اس میں
اصول یہ ہے کہ دودھ پلانے والی عورت کے تمام اصول (آبائی
سلسلہ)، فروع (اولادی سلسلہ) اور شوہر دودھ پینے والے پر حرام ہوں گے؛
لیکن دودھ پینے والے کے دوسرے بھائی بہن اور رشتہ دار سے کوئی
حرمت قائم نہ ہوگی۔(نسائ:۲۳ )
ان
قریبی رشتہ داروں سے نکاح کو حرام کیوں قرار دیا گیا؟
اس کی اصل وجہ اور حقیقی علت اور سبب کو تو اللہ تعالی ہی
بہتر جانتے ہیں؛مگر کچھ باتیں ایسی ہیں جن کو معمولی
سمجھ بوجھ رکھنے والا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے، ایک یہ کہ
ان قریبی رشتہ داروں سے ازدواجی اور جنسی تعلقات قائم
کرنے کے لیے خود انسانی فطرت اور طبیعت آمادہ نہیں ہوتی
ہے؛ یہاں تک کہ بے دینوں اور لامذہبوں کا گروہ بھی سوائے ان کے
جن کی فطرت ہی مسخ ہوچکی ہے اسے ناپسند اور شرم و حیا کے
خلاف سمجھتا ہے۔ دوسرا یہ کہ ان قریبی رشتہ داروں میں
تقدس اور پاکیزگی کا جو ہالہ قائم ہے، اور رحمت و شفقت اور محبت و
الفت کے جن اعلیٰ جذبات پر اس کی بنیاد ہے، اس کی
بقا کے لیے ضروری ہے کہ ان کے درمیان حرمت کی دیوار
کھڑی کردی جائے؛ تاکہ نفسانی خواہشات اور سفلی جذبات کا
تصور تک ان رشتوں سے ختم ہوجائے اور آپسی اعتبار و اعتماد اپنی مضبوط
بنیادوں پر باقی رہے۔
نیز
جدید ماہرینِ طب نے اس کا اعتراف کیا ہے کہ انتہائی قریبی
رشتہ داروں کے درمیان ازدواجی تعلقات، پیدا ہونے والی
اولاد کے لیے انتہائی مضر اور شدید قسم کے امراض بالخصوص جنون
اور عقلی توازن سے محرومی کا باعث ہوسکتے ہیں۔(حلال و
حرام۲۸۶)
عارضی
اور وقتی حرمت کے چھ سبب یہ ہیں:
۱-
جمع:جیسے چار عورتوں سے زیادہ کو ایک نکاح میں جمع کرنا،
اسی طرح ایک نکاح میں ایسی دو عورتوں کو جمع کرنا
کہ ان میں سے اگر ایک کو مرد مانا جائے تو دونوں کا آپس میں
نکاح کرنا حرام ہو، جیسے دو حقیقی بہنیں کہ ان میں
سے ایک کو اگر مرد مانا جائے تو یہ دونوں حقیقی بھائی
بہن ہوں گے اور ان دونوں کا آپس میں نکاح کرنا حرام ہے۔
۲- تقدیم:جیسے آزاد عورت کے نکاح میں
رہتے ہوئے باندی سے نکاح کرنا حرام ہے۔
۳-
دوسرے کا حق متعلق ہونا:دوسرے کی بیوی یا معتدہ (عدت والی
عورت) سے نکاح کرنا حرام ہے۔
۴-
ملکیت:جیسے مرد کا اپنی باندی سے نکاح کرنا حرام ہے۔
۵-
تین طلاق:مرد کا اپنی تین طلاق شدہ بیوی سے نکاح
کرنا حرام ہے؛ جب تک کہ وہ حلال نہ ہوجائے۔
۶-
اختلافِ دین :جیسے کافر اور مشرک سے نکاح کرنا حرام ہے، سوائے کتابیہ
(عیسائی اور یہودی) عورتوں کے۔(الفقہ الحنفی
و أدلتہ، ج۲، ص۱۵۲-۱۶۰)
مذکورہ
چھ قسموں کی حرمت عارضی اور وقتی ہے، یعنی وجہِ
حرمت ختم ہوجائے تو ان سے نکاح کرنا حلال ہوجائے گا۔ جیسے کافر اور
مشرک مسلمان ہوجائے تو اب ان سے وجہِ حرمت ختم ہوجانے کی وجہ سے نکاح کرنا
حلال ہوجائے گا۔
ان
میں سے ہر ایک سبب کی دلیل اور حکمت پر گفتگو کی
جائے تو بات بہت لمبی ہوجائے گی گوکہ ویسے ہی بات لمبی
ہوچکی ہے؛ اس لیے طوالت کے اندیشے کے پیشِ نظر صرف موضوعِ
بحث مسئلہ ہی پر اکتفا کرتے ہیں۔
قرآن
مجید میں صراحت کے ساتھ مشرک مرد و عورت کے ساتھ نکاح کو منع کیا
گیا، ارشاد باری ہے: وَلَا تَنْکِحُوا
الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ وَ لَاَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَیْرٌ
مِّنْ مُّشْرِکَۃٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَتْکُمْ
وَ لَا تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا
وَ لَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَکُمْ اُولٰٓئِکَ یَدْعُوْنَ اِلَی
النَّارِ وَ اللہُ یَدْعُوْٓا
اِلَی الْجَنَّۃِ وَ الْمَغْفِرَۃِ بِاِذْنِہٖ وَ یُبَیِّنُ
اٰیٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ (البقرۃ:۲۲۱)
ترجمہ:اور
مشرک عورتوں سے اس وقت تک نکاح نہ کرو؛ جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔
یقینا ایک مومن باندی کسی بھی مشرک عورت سے
بہتر ہے، خواہ وہ مشرک عورت تمہیں پسند آرہی ہو، اور اپنی
عورتوں کا نکاح مشرک مردوں سے نہ کراؤ جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں اور یقینا
ایک مومن غلام کسی بھی مشرک مرد سے بہتر ہے خواہ وہ مشرک مرد
تمہیں پسند آرہا ہو۔ یہ سب دوزخ کی طرف بلاتے ہیں
جب کہ اللہ اپنے حکم سے جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے، اور اپنے احکام
لوگوں کے سامنے صاف صاف بیان کرتا ہے؛ تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
یہ
حکم کس قدر اہمیت کا حامل ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ قرآن نے
صرف حکم ہی بیان کرنے پر اکتفا نہیں کیا؛ بلکہ مومن مرد
اور عورت کو جدا جدا خطاب کرکے منع کے ساتھ اس کی حکمت اور وجہِ ترجیح
کو بھی بیان کیا۔
اول
تو مشرک مرد و عورت سے نکاح کو منع کیا؛ جب تک وہ ایمان قبول نہ کرلیں۔
پھر فوراً ہی فیصلہ کن انداز میں ترجیحی صورت کو بھی
بیان کردیا کہ کافر و مشرک جاہ و جلال حسن و جمال اور حسب و نسب کے
اعتبار سے تمہیں کتنا ہی پسند کیوں نہ آئے، اس کے مقابلے میں
دنیاوی اعتبار سے سے کم حیثیت والا مومن ہی تمہارے
لیے ہزار درجہ بہتر ہے، قرآن نے اپنے بلیغ اسلوب میں اس کو یوں
بیان کیا: ’’ایک مومن غلام اور باندی مشرک مرد و عورت سے
بہتر ہے ‘‘۔ اس کی اصل حکمت یہ بیان کی کہ یہ
کافر اور مشرک دوزخ اور جہنم میں لے جانے والے ہیں اور اللہ تعالی
اپنے ارشاد سے جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے۔ اصل ناکامی اور
کامیابی ہی یہی ہے؛اس لیے اخیر میں
شفقت بھرے لہجے میں ارشاد فرمایا کہ یہ احکام صاف صاف اس لیے
بیان کیے جاتے ہیں؛ تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔
اس اسلوب سے اس طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ مخاطب کے فائدے کے پیشِ نظر
ہی مذکورہ حکم دیا گیا ہے۔
مفتی
محمدشفیع عثمانی صاحب ؒ اس حکم کی حکمت پر مزید
روشنی ڈالتے ہوئے رقم طراز ہیں: ’’کیوںکہ ازدواجی تعلقات،
آپس کی محبت و مودت اور یگانگت کو چاہتے ہیں، اور بغیر اس
کے ان تعلقات کا اصلی مقصد پورا نہیں ہوتا، اور مشرکین کے ساتھ
اس قسم کے تعلقاتِ قریبہ محبت و مودت کا لازمی اثر یہ ہے کہ ان
کے دل میں بھی کفر و شرک کی طرف میلان پیدا ہو یا
کم از کم کفر و شرک سے نفرت ان کے دلوں سے نکل جائے، اور اس کا انجام یہ ہے
کہ یہ بھی کفر و شرک میں مبتلا ہوجائیں، اور اس کا نتیجہ
جہنم ہے؛ اس لیے فرمایا گیا کہ یہ لوگ جہنم کی طرف
دعوت دیتے ہیں اور اللہ تعالی انسان کو جنت اور مغفرت کی
طرف دعوت دیتا ہے، اور صاف صاف اپنے احکام بیان فرما دیتا ہے؛
تاکہ لوگ نصیحت پر عمل کریں‘‘(معارف القرآن، ج۱، ص ۵۴۰)
مشرک
سے نکاح کرنا اسلامی روایت اور تہذیب و تمدن کے اعتبار سے کس
قدر سنگین ہے اور اس کے اثرات بد کتنے مہلک اور تباہ کن ہیں، اس کو بیان
کرتے ہوئے اور تاریخی شہادت کے ساتھ اس کا تجزیہ کرتے ہوئے حضرت
مولانا امین احسن اصلاحی ؒ مذکورہ آیت کی تفسیر
کے ذیل میں لکھتے ہیں: ’’پھر اس کا فلسفہ بتایا کہ رشتے
ناطے کے اثرات زندگی پر سطحی اور سرسری نہیں ہوتے؛بلکہ
بڑے گہرے ہوتے ہیں۔اگر آدمی ان چیزوں میں عقائد و
اعمال کو اہمیت نہ دے صرف حسن یا مال، یا خاندان یا مصلحت
ہی کو سامنے رکھے تو ہوسکتاہے کہ وہ اپنے ہی خرچ پر اپنے گھر میں
ایسی بلا پال لے جو صرف اسی کے نہیں؛ بلکہ اس کی
آئندہ آنے والی نسلوں کے ایمان و اسلام کا بیج بھی مار دے۔
شادی بیاہ کے تعلقات نے مذہب، روایات اور تہذیب و تمدن میں
جو عظیم تبدیلیاں کی ہیں، ان کی عملی
مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ بنی اسرائیل کی
تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اندر بیشمار عقائدی
گمراہیاں ان عورتوں کے ذریعہ سے پھیلیں جو وہ دوسری
بت پرست قوموں میں سے بیاہ کر لائے۔ اسی طرح ہمارے یہاں
مغل سلاطین ہندو راجاؤں کے ہاں سیاسی مصالح کے تحت جو شادیاں
کیں تو ان کی لڑکیوں کے ساتھ ساتھ ان کے عقائد، اوہام، رسوم اور
عبادت کے طریقے بھی اپنے گھروں میں گھسا لائے، آج بھی جو
لوگ قوموں اور مذہبوں کے امتیازی نشانات و نظریات کو ختم کرنے
کے درپے ہیں وہ اس کا سب سے زیادہ کارگر نسخہ آپس کی شادیوں
ہی کو سمجھتے ہیں۔ اس وجہ سے ایک مسلمان کو اس معاملے میں
بے پروا اور سہل انگار نہیں ہونا چاہیے؛ بلکہ اس معاملے میں اس
عظیم حقیقت کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ جس رب پر وہ ایمان
رکھتاہے اس کی دعوت مغفرت اور جنت کی طرف ہے اور جو لوگ اس ایمان
سے محروم ہیں وہ جہنم کی طرف بلانے والے ہیں عام اس سے کہ مرد
ہوں یا عورت ‘‘۔(تدبر قرآن، ج۱، ص ۵۲۰)
البتہ
حکم مذکور سے کتابیہ (پاک دامن یہودیوں اور عیسائیوں
کی عورتوں)کو الگ رکھا گیا اور ان سے نکاح کرنے کی اجازت دی
گئی۔ ارشاد باری ہے: ’’وَالْمُحْصَنٰتُ
مِنَ الَّذِیْنَ أُوْتُوالْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ۔
اور ان کی پاک دامن عورتیں جن کو تم سے پہلے کتاب مل چکی ہے،
تمہارے لیے حلال ہیں‘‘۔(سورہ مائدہ:۵)
اور
اہلِ کتاب سے مراد وہ لوگ ہیں جو ایسی کتاب کے ماننے کے مدعی
ہوں جس کا آسمانی کتاب اور وحی الٰہی ہونا قرآن و سنت سے
ثابت ہو۔ اس وقت ایسی کتاب تورات اور انجیل ہی ہیں
اور انھیں کتابوں کے ماننے والوں کو یہودی اور عیسائی
کہتے ہیں۔ یہ اجازت صرف مسلمان مردوں کو دی گئی ہے،
بہرحال مسلمان عورت کے لیے کسی بھی صورت میں کسی بھی
غیر مسلم سے نکاح کرنے کی اجازت نہیں ہے، خواہ کتابی ہو یا
غیر کتابی۔
تاہم
اس کے باوجود جمہور صحابۂ کرام اور تابعین ان سے نکاح کے نتیجے
میں پیدا ہونے والی خرابیوں کے باعث اس کو ناپسند فرماتے
تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ تو اس کو ناجائز ہی سمجھتے تھے، اور
کوئی اس بابت دریافت کرتا تو جواب دیتے ہوئے کہتے کہ اس مسئلے میں
اللہ تعالی کا ارشاد واضح ہے کہ مشرک عورتوں سے اس وقت تک نکاح نہ کرو؛ جب
تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں، اور میں نہیں جانتا کہ اس سے
بڑا کونسا شرک ہوگا کہ وہ عیسیٰ بن مریم یا کسی
دوسرے بندہ کو اپنا رب اور خدا قرار دے۔
(احکام القرآن جصاص بحوالہ معارف القرآن، ج۳، ص۶۲)
حضرت
عبداللہ بن عباس ؓ تو دارالکفر کی کتابیہ عورتوں سے نکاح کو ہی
منع کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ کا واقعہ تو اس تعلق سے مشہور ہے کہ جب ان کو
اطلاع ملی کہ حضرت حذیفہ بن یمانؓ نے مدائن پہنچ کر ایک
یہودی عورت سے نکاح کرلی ہے تو آپ ؓ نے خط لکھ کر ان کو
طلاق دینے کا حکم دیا۔حضرت حذیفہ ؓ نے جواب میں
لکھا کہ کیا وہ میرے لیے حرام ہے؟ تو دوبارہ حضرت عمر ؓ
نے اس مضمون کا خط حضرت حذیفہؓ کو تحریر فرمایا: ’’آپ کو
قسم دیتا ہوں کہ میرا یہ خط اپنے ہاتھ سے رکھنے کے پہلے ہی
اس کو طلاق دے کر آزاد کردو؛ کیوںکہ مجھے یہ خطرہ ہے کہ دوسرے مسلمان
بھی آپ کی اقتدا نہ کریںاور اہلِ ذمّہ اہل کتاب کی عورتوں
کو ان کے حسن و جمال کی وجہ سے مسلمان عورتوں پر ترجیح دینے لگے
تو مسلمان عورتوں کے لیے اس سے بڑی مصیبت کیا ہوگی‘‘۔
(کتاب الآثار بحوالہ معارف القرآن، ج۳، ص۶۲)
اسی
وجہ سے عام فقہائے کرام اس کی کراہت کے قائل ہیں۔ اس واقعے کی
روشنی میں ماضی اور حال کا موازنہ کرتے ہوئے حضرت مفتی
محمدشفیع عثمانی صاحب ؒ لکھتے ہیں:’’فاروق اعظمؓ کا
زمانہ خیرالقرون کا زمانہ ہے۔ جب اس کا کوئی احتمال نہ تھا کہ
کوئی یہودی، نصرانی عورت کسی مسلمان کی بیوی
بن کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کوئی سازش کرسکے۔ اس وقت تو صرف یہ
خطرات سامنے تھے کہ کہیں ان میں بدکاری ہوتو ان کی وجہ سے
ہمارے گھرانے گندے ہوجائیں۔ یا ان کے حسن و جمال کی وجہ
سے لوگ اس کو ترجیح دینے لگیں۔ جس کا نتیجہ یہ
ہو کہ مسلمان عورتیں تکلیف میں پڑجائیں؛ مگر فاروقی نظر دوربیں اتنے ہی
مفاسد کو سامنے رکھ کر ان حضرات کو طلاق پر مجبور کرتی ہے۔ اگر آج کا
نقشہ ان حضرات کے سامنے ہوتا تو اندازہ کیجیے کہ ان کا اس کے متعلق کیا
عمل ہوتا۔ اول تو وہ لوگ جو آج اپنے نام کے ساتھ مردم شماری کے
رجسٹروں میں یہودی یا نصرانی لکھواتے ہیں۔
ان میں سے بہت سے وہ لوگ ہیں جو اپنے عقیدہ کی رو سے یہودیت
و نصرانیت کو ایک لعنت سمجھتے ہیں؛ نہ ان کا تورات و انجیل
پر عقیدہ ہے نہ حضرت موسیٰ و عیسیٰ علیہما
السلام پر، وہ عقیدہ کے اعتبار سے بالکل لامذہب اور دہریے ہیں۔
محض قومی یا رسمی طورپر اپنے آپ کو یہودی اور نصرانی
کہتے ہیں۔ ظاہرہے کہ ان لوگوں کی عورتیں مسلمان کے لیے
کسی طرح حلال نہیں۔ اور بالفرض اگر وہ اپنے مذہب کے پابند بھی
ہوں تو ان کو کسی مسلمان گھرانہ میں جگہ دینا اپنے پورے خاندان
کے لیے دینی اور دنیوی تباہی کو دعوت دیناہے۔
اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو سازشیں اس راہ سے اس آخری دور میں
ہوئیں اور ہوتی رہتی ہیں، جن کے عبرت نامے روز آنکھوں کے
سامنے آتے ہیں کہ ایک لڑکی نے پوری مسلم قوم اور سلطنت۔۔۔۔۔۔
کو تباہ کردیا۔ یہ ایسی چیزیں ہیں
کہ حلال و حرام سے قطعِ نظر بھی کوئی ذی ہوش انسان اس کے قریب
جانے کے لیے تیار نہیں ہوسکتا۔ الغرض قرآن و سنت اور اسوۂ
صحابہ کی رو سے مسلمانوں پر لازم ہے کہ آج کل کی کتابی (یہودیوں،
عیسائیوں کی) عورتوں کو نکاح میں لانے سے کلّی پرہیز
کریں‘‘۔ (معارف القرآن، ج۳
ص ۶۳-۶۴)
اسلام کا غیر مسلموں سے نکاح کے منع کا
حکم کس قدر عدل پر مبنی ہے اور ان سے نکاح کرنا کس قدر سنگین اور خطرناک
ہے اور اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کرنا بھی کسی خطرے سے کم نہیں
ہے۔ ان سنگین صورتِ حال سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم
اسلام اور احکامِ اسلام کے شجر ہائے سایہ دار کی پناہ کو لازم پکڑ لیں
اور اس کی پناہ کو عزیر از جان، مال و عیال سمجھیں۔۔۔۔
۔گو کہ ہمیں یہ ناگوار ہی کیوں نہ محسوس ہو؛کیوں
کہ بہت ممکن ہے کہ جسے ہم اپنے لیے اچھا سمجھ رہے ہوں در حقیقت وہ
ہمارے لیے اچھا نہ ہو کیوں کہ ہمارا علم، ہماری عقل اور ہمارے
تجربات خدائے علیم و حکیم و برتر کے سامنے ہیچ ہیں۔
ہمارے اچھے اور برے کو درحقیقت صرف اللہ تعالی ہی بہتر جانتے ہیں۔
وَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَہُوْا
شَیْئًا وَّ ہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ
وَ عَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّ ہُوَ شَرٌّ
لَّکُمْ وَاللہُ یَعْلَمُ وَ
اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (البقرۃ:۲۱۶)
اور یہ عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو برا سمجھو؛ حالانکہ
وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم ایک چیز
کو پسند کرو؛ حالانکہ وہ تمہارے حق میں بری ہو اور (اصل حقیقت
تو) اللہ جانتا ہے، اور تم نہیں جانتے۔
* * *
------------------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم، شمارہ: 12، جلد:101، ربیع الاول –ربیع الثانی
1439ہجری مطابق دسمبر 2017ء